دعا ہے یونہی کبھی مل جائے
جو مل جائے تو
تو یاد کا سوال اٹھ جائے
اور جواب ہو کہ
یاد تو ذرا برابر نہیں آتی
ہاں مگر جب کبھی گنگنانے کا من ہو
تو ذکر اسی کا بزباں ہوتا ہے
جب کبھی فضا میں اداسی چھائے
تو عنوان اسی کا رواں ہوتا ہے
جب کبھی کوئی پکار لگے
تو گمان اسی کا جواں ہوتا ہے
جب کبھی غزل کی آمد ہو
تو مطلع مقطع اسی کا بیاں ہوتا ہے
پھر سوال اٹھے کہ
کیا محبت اب بھی باقی ہے؟
جواب ہو کہ نہیں
شاید اب محبت نہیں رہی
کیونکہ اب کسی اور کو
اپنانے کا خیال آتا ہے
مگر جب کبھی ایسا خیال آئے
تو چہرا اسی کا عیاں ہوتا ہے
جب وہ تھی تو
سب کچھ پانے کی چاہ تھی
مگر اب جب وہ نہیں تو
بس شام ڈھلنے کی چاہ ہے
کہنے کو تو سب کچھ پاس ہے
مگر جو اسکا ساتھ نہیں تو سب خاک ہے
سچ کہتا ہوں تلاش ہے اک گمشدہ
دعا ہے یونہی کبھی مل جائے
تو مطلع مقطع اسی کا بیاں ہوتا ہے
اور جب کبھی دل دکھے
تو نام اسی کا بدنام ہوتا ہے
پھر سوال اٹھے کہ
کیا محبت اب بھی باقی ہے؟
جواب ہو کہ نہیں
شاید اب محبت نہیں رہی
کیونکہ اب کسی اور کو
اپنانے کا خیال آتا ہے
مگر جب کبھی ایسا خیال آئے
تو چہرا اسی کا عیاں ہوتا ہے
جب وہ تھی تو
سب کچھ پانے کی چاہ تھی
مگر اب جب وہ نہیں تو
بس شام ڈھلنے کی چاہ ہے
کہنے کو تو سب کچھ پاس ہے
مگر جو اسکا ساتھ نہیں تو سب خاک ہے
دعا ہے یونہی کبھی مل جائے
No comments:
Post a Comment