پچھتاوا
نائیل
زندگی نے بھی عجب ظلم ڈھائے
ہمیں خود ہی سب غم دکھائے
ہم نے تو بس اک خوشی کی تمنا کی تھی
نجانے اس نے کیوں اتنے پڑکھچے اڑائے
کیا ظلم کیا تھا ہم نے دل لگا کر
آخر کیوں بے وفائی کے بادل چھائے
کونویں میں تو گر ہی گئے تھے شاید
اسی لئے ادھر ادھر کے اتنے چکر لگائے
اسی لئے ادھر ادھر کے اتنے چکر لگائے
پھنس کر رہ گئے تھے ہم تو بیچ میں
نہ تمھیں چھوڑ سکے اور نہ ہی چھوڑ پائے
تم تھی سماج کی دیواروں میں قید تھی شاید
پر تم کو تو کیا ہم خود کو بھی نہ چھڑا پائے
لگا کھونے سے جیت جائیں باقی تو کیا ہے غم
آخر چھوڑ کر تم کو پھر بھی نہ جیت پائے
جانتے ہیں کہ چھوڑا تو تم نے ہی تھا
مگر آج پھر ہم خود ہی قصور وار کہلا ئے
تو کیوں بیتے لمحوں کو یاد کرتا ہے نائیل
آخر کیوں کر تو ایسے ہی اپنا دل جلائے
No comments:
Post a Comment